رشتے کیسے نبھائے جائیں؟

*First posted on Express News.

ایسے لوگ جن کا ظاہر و باطن ایک ہو، جن کے لفظوں میں بناوٹ یا جھوٹ کی ملاوٹیں نہ ہوں، جن کے دل زہر کے حصار سے کالے نہ ہوں، جن کے ظرف ایسی اونچی اُڑان پر نہ ہو کہ وہ کسی کو نیچے گرانے کا سوچیں، جن کی صحبت ایسی نایاب ہو کہ ہر لمحہ کچھ بانٹ رہے ہوں، جو خالص، صاف و شفاف، اپنے اشرف المخلوقات ہونے کا بھرم رکھے انمول انسانوں کی صورت میں ہو، ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں تقریباً ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

ان باتوں کا خیال مجھے اپنے سامنے بیٹھی سمدانہ بی بی کو دیکھتے ہوئے آیا، جو ہمارے حلقہ احباب میں وہ اچھی ساس اور بہترین بہو کے طور پر جانی پہچانی جاتیں ہیں۔ میرے لیے اِن سے ملنے کی یہی دو خاص وجوہات کافی تھیں۔ اِن سے ملنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ ہر کردار میں نایاب اور مکمل تھیں۔

اچھی ماں، بیوی، بہو، بہن، بیٹی، نند ہر رشتے میں جیسے اِن کو ناطے نبھانے کا طریقہ بخوبی آتا تھا۔ یہ سب جان کر میرے تجسس میں مزید اضافہ ہوا، لہذا پوچھے بنا نہ رہ سکی کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے ساس اور بہو دو بہت ہی مشکل اور کٹھن رشتے ہیں اور اُن کو نبھانے میں ہی عورت کی شخصیت کے اصل پہلو نکھر کے سامنے آتے ہیں۔ اچھی بیٹی، ماں، بہن اور ایسے رشتے جن میں خون کی محبت شامل ہوتی ہے اُن کو نبھانا قدرے آسان ہوتا ہے، لیکن وہ رشتے جو شوہر سے سسرال کی صورت میں جڑتے ہیں یا بچوں کی شادیوں سے بہو کی صورت میں ملتے ہیں، اُن کو نبھانا کسی امتحان اور آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔

میرے سوال پر وہ پہلے مسکرائیں اور پھر کچھ دیر بڑی گہری سوچ میں پڑگئیں اور کہا کہ میں کوئی لمبی چوڑی تمہید تو نہیں باندھوں گی، نہ اپنی تعریف کے پُل بناؤں گی کہ عورتوں یہ کیا کرو اور یہ نہ کیا کرو۔ میرا نظریہ ہے کہ ساس، بہو کا رشتہ آپ کے اندر کے سوئے بدترین انسان کو جگا کر کام پر لگا دیتا ہے، اور انہی دو رشتوں میں عورت سے زیاتیاں اور کوتاہیاں بھی سرزد ہوجاتیں ہیں۔ بس اپنی زندگی کا ایک اصول بتائے دیتی ہوں جس کو ساری زندگی میں نے لاگو کیا۔

یہ رشتے بھی عجیب شے ہوتی ہے، جن کو نبھانا کسی آرٹ سے کم نہیں ہوتا اور اگر عورت کے اندر اِس آرٹ کا استعمال آجائے تو اُس کے پاس اِس سے بہترین خزانہ اور کوئی نہیں۔ ہمیشہ اپنے دل میں محبت کا عنصر غالب رکھیں اور ہر معاملے میں اپنی غلطی کو سب سے پہلے تسلیم کریں۔ خود کو ایک ہی زاویے پر رکھے گیں تو ہمیشہ اپنا آپ ہی ٹھیک لگے گا، جبکہ اِس کے برعکس آپ اپنی غلطیاں کھلے دل سے تسلیم کرلیں گیں تو بجائے دوسروں کی برائیاں اور ذاتیات پر کڑی اور گہری نظر رکھنے کے آپ کو اپنے اندر موجود کئی کوتاہیاں اور خامیاں نظر آنے لگیں گیں۔ ہمیشہ دل کے ایک حصے میں اِس موقف کو جگہ دیں کہ آپ بھی غلطی پر ہوسکتی ہیں۔ آپ سے بھی دوسروں کے معاملات میں زیادتی ہوسکتی ہے، آپ بھی کسی کا حق مار سکتی ہیں۔

ہر معاملے میں اپنے اوپر کڑی نظر رکھیں اور اپنی غلطیاں اپنے آپ کو بار بار یاد دلوائیں۔ اس طرح کرنے سے آپ کو دوسروں کی کڑوی باتیں یاد نہیں رہیں گیں۔ یقین جانیے اِس طرح کرنے سے آپ کی ذات میں عاجزی و انکساری کے سوا کچھ نہیں آئے گا، اور ’میں‘ کا بت کھوکھلا ہوگا۔ درحقیقت رشتے ناطوں کو مضبوط کرنے کے لیے اپنی ’میں‘ کو لازمی کمزور کرنا پڑتا ہے۔

یہ میری آخری بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ یہ ناطے بہت قیمتی اثاثے ہوتے ہیں، اِن میں خوبصورتی صرف محبت، احترام اور معاف کرنے سے ہی آتی ہے۔

– – – – – – – – – – –

مدیحی عدن

Leave a comment