عورت پیر کی جوتی نہیں

*First posted on Express News.

عورت کے احساسات و جذبات بہت نازک اور انمول ہوتے ہیں اور اِس سے بڑھ کر وہ عزت کی حریص ہوتی ہے۔ محل میں رہنے والی امیر عورت کو بھی اگر کوٹھڑی نما گھر میں عزت دے دی جائے تو یہ مخلوق اتنی قدر دان ہے کہ ہر مشکل میں ساتھ نبھانے کی بھرپور کوشش کرتی ہے، لیکن جب اِسے عزت کی گُھٹی ملنا بند ہوجائے تو وہ اِن شاندار محلوں میں بھی خود کو قید کی ہوئی ایک لونڈی کے سوا اور کچھ نہیں سمجھتی۔

یہ مرد کو ہمیشہ سمجھنا چاہیئے کہ اِس سے منسلک عورت کو صرف شاندار گھر، سجنے سنورنے کے لیے بہترین لباس یا پیسہ ہی نہیں چاہیئے ہوتا بلکہ اِن سب سے بڑھ  کر اور اہم اِس کے لیے اپنے شوہر سے ملنے والا پیار اور عزت ہوتی ہے، جبکہ اُس کو بے بس کرنے کے لیے بس اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اُس کا شوہر اُس کی تذلیل کرتا پھرے۔

بیوی بننا عورت کے لیے بہت عظیم اور اہم رشتوں میں سے ایک رشتہ ہوتا ہے اور ہر عورت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کی جگہ اُس کے شوہر کے دل میں بہت خاص ہو۔ جس عورت کو مرد کی طرف سے پیار کے ساتھ ساتھ توجہ اور عزت بھی مل رہی ہو تو اُس کی ذات میں خود اعتمادی، اپنے فیصلوں پر یقین اور اُس کی ذات میں بے پناہ اطمینان دیکھنے کو ملتا ہے لیکن جب یہی مرد اِس عورت کی پاؤں میں پڑی جوتی کہہ کر تذلیل کرے اور اپنے ہر عمل سے اِس بات کو ثابت کرنے کے در پر بھی ہو تو ایسی عورتوں کی ذات میں بے پناہ احساس کمتری، خوف اور ہیجان کی سی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔

میں نے بہت سے ایسے پاکستانی مرد دیکھے ہیں جو بھری محفل میں اپنی عورت کو ذلیل کرکے رکھ دیتے ہیں اور اُن مردوں کا ایسا برتاؤ کسی صورت اللہ کو پسند نہیں، کیونکہ وہ اللہ کی بنائی مخلوق کی عزت و تکریم کے بجائے اِس کو محض اپنی پیروں کی جوتی سے تشبہہ دینا پسند کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں عورت کے احساسات آبگینہ کی مانند نازک ہیں جو ذرا سی ٹھیس پر بکھر جاتے ہیں۔ کانچ سے بنی اشیاء کو نازک ہونے کی وجہ سے بہت احتیاط سے رکھا جاتا کہ کہیں ذرا سی بے احتیاطی سے ٹوٹ کر کرچی کرچی نہ ہوجائے اور اِس لیے آئینہ سے تشبیہ دے کر صنف نازک کا یہی خواص باور کروایا جاتا ہے کہ اِس کے ساتھ بھی احتیاط کا رویہ رکھا جائے۔ یہاں تک کہ نبیﷺ نے  اپنے آخری خطبہ میں بھی مردوں کو خاص تاکید کی کہ،

عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو

لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت کے ساتھ مردوں کا رویہ اسلام اور ہماری خود ساختہ روایات کا ملاپ بن کر رہ گیا ہے۔ اِس مخلوق پر جوتی کا لیبل تو مردانگی کے زعم میں جمادیا جاتا ہے لیکن اُس کیلئے کانچ جیسی تشبہات کو معاشرہ فراموش کردیتا ہے۔ اسلام جس نے آج سے 14 سو سال پہلےعورتوں کے لیے مردوں کے رویے کو جس انداز میں بدلا تھا، وہ بدقسمتی سے آج تک ہمارے معاشرے میں غالب نہ آسکا۔

صنف قوی کی اصل مردانگی اُن کی تربیت اور رویے میں جھلکنی چاہئیے جہاں وہ ہمیشہ عورت کی عزت و تکریم کو سب سے مقدم رکھیں اور اپنی اسی تربیت کے پیش نظر ’’پیر کی جوتی‘‘ جیسی فرسودہ اور گھٹیا سوچ کو رد کریں۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مدیحی عدن

Leave a comment